اول:
اگر کوئی شخص ایسی سواری پر سفر کرنے پر مجبور ہو جہاں مرد و خواتین کا اختلاط ہوتا ہو، تو اس پر لازم ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے حتی المقدور اپنی نظر نیچی رکھے، اور عورتوں کے ساتھ بیٹھنے سے اجتناب کرے، چاہے اسے کھڑا ہونا پڑے۔ اللہ کی رضا اور فتنہ سے بچاؤ کے لیے یہی طریقہ بہتر ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں ہی کی وجہ سے پیدا ہوا" صحیح مسلم: 2742
اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا"اس حدیث کو امام بخاری: (5096) اور مسلم : (2740) نے روایت کیا ہے۔
اگر ممکن ہو تو آدمی اپنی جگہ تبدیل کر لے، یا کسی اور طریقے سے عورت کے ساتھ بیٹھنے سے بچ جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً * وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً
ترجمہ: جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو اللہ پر بھروسا کرے، تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ بے شک اللہ اپنا حکم پورا کر کے رہتا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ [سورۃ الطلاق: 2-3]
دوم:
اگر کوئی شخص اپنی جگہ تبدیل نہ کر سکے، اور نہ ہی بس یا ٹرین بدل سکے، اور کھڑا ہونا زیادہ زحمت و فتنہ کا سبب ہو، تو پھر اس کے لیے عورت کے ساتھ بیٹھنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ وہ حتی الامکان فاصلے پر بیٹھے۔
لیکن اگر اسے اپنے دین پر فتنے کا اندیشہ ہو، یا شیطان دل میں وسوسے ڈالنے لگے، یا دل و دماغ مشغول ہونے لگے، تو اس پر واجب ہے کہ فوراً گاڑی سے اتر جائے، چاہے اسے کام یا تعلیم میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑے، کیونکہ انسان کے لیے اس کا دین سب سے قیمتی چیز ہے۔
ہم نے فضیلۃ الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے بھی ضرورت اور حاجت کے مطابق، بشرطیکہ فتنے سے امن ہو، عورت کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی۔
واللہ اعلم