نماز کے دوران نمازی کے سامنے سترہ رکھنا (یعنی کوئی رکاوٹ یا چیز رکھنا) ایک مؤکد سنت ہے، اور بعض اہل علم نے اسے واجب قرار دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے لیے سخت وعید سنائی ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر گزرنے والا یہ جان لے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے پر اس پر کیا وبال ہے، تو وہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کی بجائے چالیس تک کھڑا رہنا بہتر سمجھے گا۔) راوی ابو نضر کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن، یا چالیس مہینے، یا چالیس سال فرمایا۔ صحیح بخاری: 480، صحیح مسلم: 507
اب سوال یہ ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو وہ فاصلہ کتنا ہو جہاں سے گزرنے پر گناہ نہیں ہو گا؟ اس حوالے سے متعدد اقوال ہیں، تاہم اگر نمازی نے اپنے سامنے سترہ رکھا ہو تو گزرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس سترے کے باہر سے گزرے، اور اگر سترہ موجود نہ ہو تو فقہاء کے دو مشہور اقوال ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پہلا قول: یہ معاملہ عرف (معاشرتی عُرف) پر موقوف ہے؛ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر نمازی کے سامنے کوئی سترہ نہ ہو، اور کوئی شخص اتنے فاصلے سے گزرے جو عمومی عرف میں ’’نمازی کے سامنے‘‘ شمار نہ ہوتا ہو، تو وہ گناہ سے بچ جاتا ہے۔ جیسے کہ وہ شخص جو سترے کے پیچھے سے گزرتا ہے۔‘‘ یعنی اگر آپ عرف کے لحاظ سے نمازی کے سامنے والے علاقے میں شمار نہیں ہوتے، تو وہاں سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔
دوسرا قول: شرعی انداز سے فاصلے کی مقدار بیان کی گئی ہے۔ اس میں دو تفصیلات بیان کی جاتی ہیں:
- نمازی کے قیام کی جگہ سے تین ہاتھ (تین گز) کا فاصلہ.
- یا نمازی کی سجدہ گاہ سے ایک بکری کے گزرنے کی جگہ کے برابر فاصلہ۔
یہی مقدار نمازی کے سامنے سترے کے لیے بھی مقرر کی گئی ہے، اور یہ قول کثیر اہل علم کا ہے۔
اس کی دلیل صحیح احادیث سے بھی ملتی ہے چنانچہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصلے اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کی جگہ ہوتی تھی‘‘۔ صحیح بخاری: 474، صحیح مسلم: 508
اسی طرح سیدنا نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کعبۃ اللہ میں داخل ہوتے دروازہ کو پچھلی سمت رکھتے ہوئے آگے بڑھتے اور تین ہاتھ کے قریب دیوار سے فاصلہ رکھ کر نماز ادا کرتے تھے؛ آپ یہ اس لیے کرتے تھے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی بتلائی ہوئی جگہ تلاش کرتے تھے کہ جہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کے اندر میں نماز پڑھی تھی۔‘‘ صحیح بخاری: 484