0 / 0
7102/ذو الحجة/1446 , 29/مئی/2025

اگر قیمت میں دھوکہ ہو جائے اور بیع فسخ کر دی جائے، لیکن فسخ کرنے والے پر جرمانے کی شرط ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟

سوال: 358671

میں نے ایک پلاٹ خریدنے کا ارادہ کیا اور پھر اسے 5,04,000  میں زمین کے مالک سے خرید لیا۔ پھر ہم نے سٹہ لکھا، جس میں طے پایا کہ میں 10 دن کے اندر اقساط میں رقم ادا کر دوں گا، اور اس کے بعد مجھے زمین کی رجسٹری اور انتقال مل جائے گا اور زمین میرے نام ہو جائے گی۔ ہم نے یہ بھی طے کیا کہ جو بھی فریق معاہدے سے پیچھے ہٹے گا، وہ 50,000 کا جرمانہ ادا کرے گا۔

میں نے بیچنے والے کو 3,09,000 ادا کر دیے، لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس زمین کی حقیقی مارکیٹ قیمت 3,36,000 سے زیادہ نہیں ہے۔ اس پر میں نے بیچنے والے سے کہا کہ وہ مارکیٹ قیمت پر زمین بیچے، یا میری دی گئی رقم واپس کر دے۔ اس نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا، مگر مجھے صرف 2,59,000 واپس کیے اور معاہدے میں درج شرط کے مطابق 50,000 بطور جرمانہ کاٹ لیے۔ کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟

جواب کا متن

اول:

خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان جرمانے (شرطِ جزائی) کا حکم

خریدار اور فروخت کنندہ درمیان شرطِ جزائی رکھنا جائز ہے، یعنی اگر کوئی فریق معاہدے سے پیچھے ہٹے تو وہ دوسرے فریق کو ایک مخصوص رقم ادا کرے۔ کیونکہ اصولی طور پر شریعت میں شرائط کا اعتبار ہوتا ہے اور غیر قرض والے معاملات میں شرطِ جزائی قابلِ قبول ہے، جیسا کہ سوال (281085) کے جواب میں وضاحت کی گئی ہے۔

دوم:

شرطِ جزائی کی پابندی کب لازمی نہیں ہوتی؟

یہ شرط اس وقت لاگو نہیں ہو گی جب بیع فسخ کرنے کا کوئی شرعی سبب موجود ہو، جیسے:

  1. خیارِ شرط : یعنی خرید و فروخت میں طے شدہ مدت کے اندر فسخ کا اختیار
  2. خیارِ عیب : یعنی سامان میں کوئی نقص یا خرابی ہو
  3. خیارِ غبن : یعنی قیمت میں بہت زیادہ دھوکہ یا فریب ہو

اگر کسی نے دھوکہ (غبن) کھایا ہو اور اس کے حق میں شرعاً بیع فسخ کرنے کا اختیار ثابت ہو، تو وہ بیع ختم کر سکتا ہے اور اس پر جرمانے کی شرط لاگو نہیں ہو گی، واضح رہے کہ خیارِ غبن میں قیمت کا بہت زیادہ تفاوت  معتبر ہے، معمولی فرق معتبر نہیں ہے۔

غبنِ فاحش (زیادہ دھوکہ) کا شرعی معیار

فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ کب قیمت میں فرق "زیادہ دھوکہ" (غبنِ فاحش) شمار ہو گا:

  • بعض فقہاء کے نزدیک اگر قیمت  میں ثلث (1/3) سے زیادہ فرق ہو تو یہ "غبنِ فاحش" ہو گا۔
  • کچھ کے مطابق یہ فرق خمس (1/5) سے زیادہ ہونا چاہیے۔
  • بعض نے اسے مارکیٹ ریٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ: (20/150) میں ہے کہ :

’’ حنفی، مالکی  فقہا کے راجح موقف کے مطابق اور حنبلی فقہاء کی ایک رائے کے مطابق غبن کا تخمینہ لگانے کے لیے تاجروں کا مارکیٹ ریٹ معتبر ہو گا۔

اگرچہ فقہائے کرام کی تعبیر الگ الگ ہے، لیکن سب کی گفتگو میں یہی بات پائی جاتی ہے۔

چونکہ قیمتوں اور تجارتی معاملات میں ان کے ماہرین ہی اصل مرجع ہوتے ہیں، اس لیے ان کی رائے کو اس معاملے میں بنیاد بنایا جائے گا۔

مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کا دوسرا موقف یہ ہے کہ خیارِ غبن میں  ایک تہائی فرق کو معتبر سمجھا جائے گا، جبکہ اس مسئلے میں تیسرا موقف جو کہ مالکیہ کا ہے وہ یہ ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ فرق کو معتبر سمجھا جائے گا۔‘‘ ختم شد

سوم:

اگر غبنِ فاحش ثابت ہو جائے تو خریدار کو کیا اختیار حاصل ہو گا؟

اگر خریدار کو قیمت میں زیادہ دھوکہ (غبنِ فاحش) دیا گیا ہو، تو اسے دو اختیارات حاصل ہوں گے:

  1. وہ زمین واپس کر کے اپنی پوری رقم لے سکتا ہے۔
  2. اگر وہ زمین رکھنا چاہے تو اسے قیمت میں فرق ’’ اَرش‘‘ [مارکیٹ کی حقیقی قیمت اور طے شدہ قیمت میں فرق] واپس نہیں ملے گا۔

جیسے کہ "کشاف القناع" (3/212) میں لکھا ہے:
"غبنِ فاحش کی صورت میں خریدار کو اختیار ہو گا کہ وہ چیز واپس کر دے یا اسے رکھ لے [مگر وہ قیمت میں کمی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔] ۔"

واللہ اعلم۔

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android
اگر قیمت میں دھوکہ ہو جائے اور بیع فسخ کر دی جائے، لیکن فسخ کرنے والے پر جرمانے کی شرط ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ - اسلام سوال و جواب