جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے کہ غیر عربی زبان میں اذان دینا صحیح نہیں ہے جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (11/ 170)میں ہے کہ :
"اذان کا ترجمہ: اگر کوئی مؤذن فارسی زبان میں اذان دے یا عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں اذان دے احناف اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں صحیح موقف کے مطابق اس کی اذان صحیح نہیں ہو گی چاہے سبھی کو پتہ چل جائے کہ وہ اذان دے رہا ہے ؛ یہی موقف مالکی فقہائے کرام کی گفتگو سے عیاں ہوتا ہے کیونکہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں اذان دینے کے لیے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اذان شرعی الفاظ کے ذریعے دی گئی ہو تاہم شافی فقہائے کرام نے اس مسئلے کے متعلق تفصیل بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر مؤذن ایسے لوگوں کے لیے اذان دے رہا ہے جن میں عربی زبان میں اذان دینے والا شخص موجود ہے تو پھر غیر عربی زبان میں اذان نہیں دی جا سکتی اور اگر ان میں عربی زبان میں کوئی اذان دینے والا شخص نہیں ہے تو پھر اذان دینا غیر عربی زبان میں کافی ہو گا اور اگر مؤذن اکیلا ہے اور اپنے لیے ہی اذان دے رہا ہے تو اگر وہ عربی زبان میں اذان دے سکتا ہے تو غیر عربی زبان میں اذان دینا اس کے لیے کفایت نہیں کرے گا تاہم اگر اسے عربی زبان میں بھی اذان دینا نہیں آتی تو غیر عربی زبان میں دی گئی اس کی اذان کافی ہو گی۔" ختم شد
دیکھیں: بدائع الصنائع (1/ 113)، الدر المختار مع ابن عابدين (1/ 485)، المجموع (3/ 137)، الإنصاف (1/ 413)
تاہم اسکولوں یا مدارس میں اذان کی تعلیم و تدریس اور سمجھانے کے لیے غیر عربی زبان میں ترجمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
واللہ اعلم