0 / 0
73830/رجب/1446 , 30/جنوری/2025

سخت گیر مت بنو

سوال: 11283

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جب اسے کسی خلاف شریعت کام سے روکا جائے تو آگے سے کہہ دے: متشدد مت بنو، اور نہ ہی سخت گیر بنو، اعتدال میں رہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اعتدال کی وضاحت فرما دیں۔

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

"اگر کسی شخص کو شرعاً کسی حرام کام سے روکا جائے، یا کسی واجب کام کو چھوڑنے سے منع کیا جائے اور آگے سے وہ یہ بات کہے تو یہ اس کی غلطی ہے، اس صورت میں تو اسے نصیحت کرنے والے کا شکر گزار ہونا چاہیے ، اور اگر واقعی اس کی نصیحت ٹھیک ہے تو پھر غلطی سے باز رہے اور وہ کام کرے جو اس کے ذمہ واجب ہوتا ہے۔

اس شخص کا یہ کہنا کہ تم سخت گیر بن رہے ہو، تو اس حوالے سے یہ ہے کہ سختی، تساہل اور اعتدال ان سب کا تعلق شریعت کے ساتھ ہے، لہذا جو کام بھی شریعت کے مطابق ہو گا تو وہ اعتدال پر مبنی ہے، اور جو شریعت کے مقابلے میں زیادتی ہو گی تو وہ تشدد اور سختی کہلا ئے گا، اور جو شریعت کے مطابق نہیں ہو گا بلکہ کم ہو گا تو وہ تساہل اور سستی کہلائے گا۔ لہذا ان تمام امور میں معیار شریعت ہے، لہذا اعتدال وہی ہے جو شریعت کے عین مطابق ہو، چنانچہ جو کام بھی شرعی اصولوں کے مطابق ہو گا وہی اعتدال ہو گا۔" ختم شد

ماخذ

فتاوى الشیخ محمد بن صالح عثیمین

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android
سخت گیر مت بنو - اسلام سوال و جواب